Sunday, 5 February 2017

پابندی حافظ سعید پر یا مظلوم انسانوں کی امداد پر…تحریر : سعد سالار

پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں فلاح انسانیت فاؤنڈیشن اور جماعت الدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعید کو جوہر ٹاؤن میں واقع ان کے گھر میں نظر بند کر دیا گیا ہے۔تحریک آزادی کشمیر اور جماعت الدعوة کے حوالے سے حافظ محمد سعید کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ صوبہ پنجاب کی وزاتِ داخلہ کے حکام کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کی رو سے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں فلاح انسانیت فاؤنڈیشن اور جماعت الدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعید کو جوہر ٹاؤن میں واقع ان کے گھر میں نظر بند کر دیا گیا ہے۔
تنظیم کے پانچ رہنماؤں حافظ سعید، عبداللہ عبید، ظفر اقبال، عبدالرحمن عابد اور قاضی کاشف نیاز کو اے ٹی اے ٧٩٩١ کے سیکشن ١١ ای ای ای کے تحت حفاظتی تحویل میں لینے کا حکم بھی جاری ہوا تھا۔ اس موقع پر ان کی جماعت کے اراکین کی جانب سے اس اقدام کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی۔اس سے قبل پاکستان کے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ حافظ محمد سعید کی گرفتاری ضروری تھی،انہوں نے بتایا کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے نومبر ٨٠٠٢ میں بھارتی شہر ممبئی میں ہونے والے حملوں کے بعد جماعت الدعوة پر پابندیاں لگائی تھیں اور اسے دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔بھارت اور امریکہ کے مطابق جماعت الدعوة ان حملوں کی ذمہ دار تھی جس میں ٤٧١ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ یہ جماعت سنہ ٠١٠٢/١١ سے زیرِ نگرانی ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں میں بھی لسٹڈ? ہے۔ان کے مطابق لسٹنگ کے بعد کسی بھی ریاست کو کچھ اقدام کرنا ہوتے ہیں اور وہ نہیں ہو پائے تھے تاہم اب کچھ اقدامات کیے جا رہے ہیں۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حافظ سعید کا کہنا تھا کہ’میری نظربندی کے آرڈر انڈیا اور واشنگٹن سے ہوتے ہوئے پاکستان آئے ہیں اور پاکستان کی اپنی کچھ مجبوریاں ہیں۔ انہیں بیرونی ممالک کے دباؤ کی وجہ سے نظر بند کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے اپنے پیغام میں مزید کہا کہ اگر ہمارے دشمن عناصر یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح ہم تحریک کشمیر کی حمایت سے پیچھے ہٹ جائیں گے تو ایسا نہیں ہوگا۔دوسری طرف حکومتی رکن سیکرٹری خزانہ رانا محمد افضل کے مطابق پروفیسر حافظ محمد سعید کو صرف حفاظتی تحویل میں لیا گیا ہے، ہرفیصلہ پاکستان کے مفاد میں کیا جاتا ہے ذرائع کے مطابق اس جماعت کا قیام 1985 میں عمل میں آیا حافظ سعید اس جماعت کے امیر ہیں ابتدا میں چند افراد سے شروع ہونے والی اس جماعت کی تعداد آج کروڑوں میں پہنچ چکی ہے حافظ سعید اور انکی جماعت ہمیشہ سے بیگناہی کے باوجود ملک کے ہر قانون پر عمل کرتے رہے ہیں 2001 میں ہونے والے نائن الیون کے حملوں کے بعد اس جماعت پر پابندی لگا دی گئی اور حافظ سعید کو نظر بند کیا گیا لیکن جماعت الدعوہ نے اس فیصلے پر عدالت سے رجوع کیا جہاں سے عدم ثبوت کی بنا پر عدالت نے انکو بیگناہ قرار دے کر حکومتی فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا جس کے بعد قدرتی آفات سیلاب ہو یا زلزلہ طوفان ہو یا آندھی ہر جگہ انسانیت کی خدمت کرتے یہ لمبی ڈاڑھی اور اونچی شلوار والے جوان نظر آئے 2005 کے قیامت خیز زلزلے میں جب حکومت ابھی سوچ رہی تھی کہ اس قدرتی آفت سے کیسے لوگوں کو نکالا جائے تب یہ نوجوان اپنی مدد آپ کے تحت پیدل اپنے کندھوں پر سامان اٹھائے لوگوں کو بچانے پہنچ چکے تھے۔
زخمیوں کو زمین پر لیٹا کر ٹارچوں کی روشنیوں میں علاج کیا گیا جان بحق ہوئے لوگوں کی تدفین کی گئی ہر متاثرہ انسان تک خوراک پہنچائی گئی فوری طور پر عارضی خیمہ بستیاں بسائی گئیں دنیا کے نام نہاد ادارے جب زلزلے سے مقامات پر پہنچے تو انکو کوئی جگہ ہی میسر نہ آئی کہ کہاں وہ اپنی عیسائیت کے تحت کام کریں ہر جگہ انکو اونچی شلوار والے جوان کام کرتے نظر آئے چنانچہ وہ بھی اپنی امداد انہی خدمت انسانیت کے رضاکاروں کو سونپ کر چلے گئے اور آج انہی متاثرین تک صرف حافظ سعید کے رضاکار ہی امداد پہنچا رہے ہیں آج جس امریکہ کے کہنے پر حافظ سعید کو نظر بند کیا گیا وہ امریکہ حافظ سعید کی خدمات کا اعتراف کرتا نظر آیا جس اقوام متحدہ کی قرار داد کے مطابق پاکستانی حکومت نے انکو نظر بند کیا کیا گیا وہی اقوام متحدہ حافظ سعید اور انکی جماعت کو ایوارڈ ڈیٹا نظر آیا آگے چلئیے 2010 کے سیلاب نے سندھ کو پانی پانی کر دیا تو ناکافی وسائل کے باوجود لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرکے ان میں خواراک ادویات تقسیم کی گئیں چھوٹے چھوٹے بچوں کو دودھ اور بسکٹ فراہم کیے گئے۔
اس جماعت نے بلا تفریق ہندوں عیسائیوں اور مسلمانوں کی خدمت کی 2011 2012 میں جب لاہور گوجرانوالہ جیسے بڑے اضلاع ملتان مظفرگڑھ رحیم یار خان جیسے اضلاع پانی میں ڈوب گئے تب انکی مدد کو کون پہنچا یہ انہی اضلاع کے لوگوں سے پوچھئے جو آج حافظ سعید کی نظر بندی پر سراپا احتجاج ہیں 2013 کے سیلاب میں تو حکومت نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیے لیکن خدمت انسانیت کا جذبہ لیے یہ نوجوان پانیوں میں ڈوبے لوگوں کو اور انکے سامان کو نکالتے نظر آئے وہ ملتان می ں باراتیوں کی ڈوبنے والی کشتی ہو یا پانی میں گرنے والی گاڑی سب کو بلا تفریق رسکیو کرتے رہے جب دنیا کے مظلوم مسلمان اپنی عید پر افسردہ تھے تب انہی انسان نما فرشتوں نے فلسطین شام برما صومالیہ کشمیر افغانستان جیسے ملکوں میں عید کی خوشیاں بانٹی وہ مارگلہ کی پہاڑیوں پر حادثے کا شکار ہونے والا جہاز ہو یا پانی میں گرنے والی ٹرین رات دن کی پرواہ کی بغیر اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالے حافظ سعید کے رضاکار ہی امداد کے لیے پہنچے دنیا میں تھر پارکر کی مظلومیت اور قحط سالی کا شور مچنے سے پہلے ہی یہ نوجوان تھر میں پہنچ کر انسانیت کی خدمت میں مصروف ہو چکے تھے اور آج تھر پارکر کا کوئی گھر کوئی گوٹھ ایسا نہیں جہاں فلاح انسانیت فاونڈیشن کا واٹر پمپ سکول مسجد ڈسپنسیری نہ بنی ہو بلا تفریق ہندوں کی بھی خدمت کی گئی انکو بتایا گیا کہ سب انسان برابر ہیں یہ خدمت یہ برابری ہمیں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ہمارے دین نے سیکھائی ہے تو وہ ہندوں جن کو انسانیت سے گرا سلوک کیا جا رہا تھا وہی دھڑا دھڑ اس سچے دین کو اپنانے لگے تو دنیا بھر میں انسانیت کے دشمنو اسلام کے دشمنوں پر قہر بھرپا ہو گیا کہ ہمارے سارے ہتھکنڈے یہ نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ختم کرتے جا رہے ہیں پاکستان کی کو محفوظ کرتے جا رہے ہیں تو ان نے پاکستان میں بیٹھے غلاموں سے ان فلاح انسانیت کے لوگوں کو لگام دینے کا مطالبہ کیا تو اسی ذولفقار علی بھٹو جس نے قادیانیوں کو اسلام سے خارج قرار دیا اسکی پارٹی نے اسلام قبول کرنے پر پابندی لگا دی تھر پارکر میں چلے جائیں آپکو ہر جگہ یہ نوجوان نظر آئیں گے جب ان غریب ہندوں کو حافظ سعید کی نظر بندی کا پتا چلا تو وہ مشکلات کے باوجود کراچی پہنچ کر مسلسل سراپا احتجاج ہیں۔
آگے بلوچستان چلئیے آواران میں زلزلہ آیا تو یہی نوجوان اس علاقے میں جا پہنچنے جہاں پاکستان کی آرمی میں نہیں جا سکتی تھی دھمکیوں سختیوں کے باوجود جب بلوچوں کی مسلسل خدمت کی انکی محرومیوں کو دور کیا ان میں خوشیاں بانٹی انکو برابری کا درجہ دیا تو وہی بلوچ پاکستان کے خلاف ہتھیار پھینک کر پاکستان کے محافظ بنے فلاح انسانیت فاونڈیشن کی خدمت سے متاثر ہو کر بلوچوں کے لیڈر اکبر بگٹی کے پوتے شاہ زین کو لاہور میں حافظ سعید کے پاس لانے والا اسی جماعت کا مہنج دعوت خدمت بنا جب اس غیور بلوچ سردار نے لاکھوں لوگوں کے سامنے پچاس ہزار نوجوانوں کے ساتھ حافظ سعید کا ساتھ دینے کا اعلان کیا تو پاکستان کے دشمن انسانیت سے گرے مودی کی گیڈر بھکیوں کی آواز گنگا کے اندر ہی رہ گئی اب پاکستان سے پاکستان کی شاہ کشمیر چلئیے کشمیر کے ہر نوجوان کی آواز حافظ سعید بنے تو چشم فلک نے منظر دیکھا کہ برہان وانی جیسے بڑے کمانڈر کی خواہش بھی حافظ سعید سے ملنا تھی 1990 سے مسلسل کشمیریوں کی مدد کی تو صرف حافظ سعید کی جماعت نے برہان وانی کی شہادت کے بعد جب کشمیریوں پر قیامت برپا کی تو انکی مدد کے لیے حافظ سعید آگے بڑھے کشمیری مہاجرین کو سینے سے لگایا ہزاروں خاندانوں کی کفالت کا ذمہ لیا۔
2017 کو کشمیر کے نام کیا اپنی جان مال کشمیر پر قربان کیا تو مودی کے رونے ٹرمپ تک پہنچے تو دونوں اسلام کے بدترین دشمنوں نے پاکستانی حکومت پر دباو ڈالا کہ ان فلاح انسانیت فاونڈیشن کے جوانوں کو بند کرو ان پر پابندی لگاو امریکی امداد پر تکیہ لگائے انتظار کرتی پاکستانی حکومت نے فوری یس سر کے ساتھ حکم کی تعمیل کی اور حافظ سعید کو نظر بند کر دیا۔ یہ پابندیاں حافظ سعید پر ہیں یا تھر پارکر بلوچستان کشمیر برما صومالیہ غزہ فلسطین شام افغانستان مشرقی تیمور نیپال بنگلہ دیش سری لنکا کے متاثرین کی امداد پر انکے منہ جاتے خواراک کے نوالوں پر فیصلہ پاکستان کی عوام کو کرنا ہے سی پیک کے لیے بلوچوں کو منانا بلوچستان سندھ کی سرحدیں محفوظ کرنا پاکستانیوں میں نفرتوں کو ختم کرنا اور متحد کرنا حافظ سعید کا جرم بنا۔

Thursday, 27 October 2016

جانے کی باتیں ....... اب جانے دو

میں کیسے نه کہوں پاک آرمی زنده باد..... 
میں کیسے نه کہوں که جنرل راحیل شریف


جانے کی باتیں ....... اب جانے دو

رات بھر گولیوں کی گرج اورپیاروں کی آہ و پکار، اپنوں کے کھو جانے اور شائد ہمیشہ کے لیے لگ جانے والے معذوری کے روگ کی سوچوں میں ڈوبی گولیوں کی بھونچار میں گزرتی تاریک رات کے ایک ایک پل میں خود کو جیتا اور مرتا محسوس کر رہا تھا۔ وہ میرا بھائی تھا، مگر بھلے اکیلا نہ تھا، اس کے ساتھ سینکڑوں ساتھی بھی پولیس ٹرئینگ سینٹر کوئٹہ کی بلڈنگ میں موجود تھے۔۔۔
رات کے سناٹے میں دور دور تک سنائی دینے والی گولیوں کی گونج ۔۔۔لگتا تھا کہ ایک ایک گولی میری ہی کنپٹی پر نشانہ بنا کر چلائی جارہی ہے۔ صبح تک وہ قیامت کی گھڑیاں کیسے گزریں میں جانتا ہوں یا میرا خدا جانتا ہے۔بھاگتے دوڑتے وردی میں ملبوس، ہتھیاروں سے لیس وہ اونچے لمبے جوان میرے اور مجھ جیسے سینکڑوں بے بس اور لاچار کھڑے ہجوم کی ایک واحد امید تھے۔
وقت گزرتا گیا، ہسپتال میں زخمیوں اور شہداء کی شناخت کرتے کرتے سانسیں اکھڑتی محسوس ہو رہی تھیں۔ سب جانتے بوجھتے بھی جب نظر اپنے بھائی کی خون سے لت پت جست خاکی پر پڑی تو زندگی میں پہلی بار احساس ہوا کہ پیروں تلے سے زمین نکلتی کیسے ہے۔۔لمحے بھر کے لیے تو اپنے جسم کو ہلانے کی سکت تک باقی نہ بچی تھی۔ اتنا یاد ہے کہ کسی اللہ کے بندے نے مجھے میرے دونوں کندھوں سے پکڑ کر سہارا دیا تھا۔ میرے خشک اور پھٹے ہوئے ہونٹوں پر پانی کا گلاس لگایا تھا جسکا میں مشکل سےصرف ایک گھونٹ اندر کر پایا تھا ۔۔۔۔
رفتہ رفتہ دوست احباب اور چند رشتےدار مدد کو آن پہنچے تھے۔ اہل خانہ کی فون کالز سننےتک کی اب ہمت نہیں جُتا پا رہا تھا۔۔۔سارا دن جیسے تیسے کرتا گزرتا گیا۔ میں اپنے بھائی کاکفن میں لپٹا جسم تابوت میں جاتا ہوا دیکھ رہا تھا۔ بچپن کی یادیں، آنکھوں میں نمی، کانپتے لبوں سے سوچ رہا تھا کہ جس بھائی کو گود میں کھیلاتا رہا تھا وہ رات بھر کس قیامت سے گزرا ہوگا۔۔۔ کیا اس کو اتنا موقع ملا ہو گا کہ خود کو بچا سکے؟ کیا اس نے گھر فون کرنے کی کوشش کی ہو گی؟ کیا اس نے کسی کو بچاتے بچاتے جان دی ہوگی؟ جب موت اسکی پرچھائی بنی اس کے ساتھ ساتھ بھاگ رہی تھی وہ منظر کتنا کرب ناک ہوگا؟؟؟
میں سوچوں میں گم تھا کہ کانوں کو چھو کر ایک بھاری سی آواز گزری "اوئے دلاور،جنازہ ابھی روک لے،وزیراعظم میٹنگ کی وجہ سے تھوڑا لیٹ آئیں گے "۔ میرا بھائی اس دنیا سے جا چکا تھا، میں جانتا ہوں کہ اسکی لاش کو وزیراعظم کے آنے یا نہ آنے سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا تھا۔ اسے اس بات سے قطعاً کوئی غرض نہیں تھی کہ وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی اہم میٹنگ زیادہ ضروری ہے یا اس کا جنازہ وقت پر پڑھے جانا زیادہ ضروری ہے البتہ میرے لیے ایک ایک پل قیامت سے کم نہ تھا۔۔ میں خاموش رہا، کچھ دیر بعد وہی آواز کانوں کو پھر سے سننی پڑ گئی جس نے کچھ ہی دیر پہلے میرے زخموں کو کُریدہ تھا "وزیراعظم کی میٹنگ ختم ہو گئی ہے وہ کچھی ہی دیر میں روانہ ہو جائیں گے، جنازے کی تیاری پکڑو" یعنی مرا میرا بھائی اورجنازے کے لیے انتظار وزیراعظم کا ہو رہا ہے؟ وہ بھی وہ وزیراعظم جنکی اس وقت کی ترجیح میٹنگ اٹینڈ کرنا تھی! اپنی کیفیت کو الفاظ کا لباس اوڑھنے کے لیے میرے پاس لغت کی کمی ہونے لگی تھی، بس میں خاموشی سے فرش پر بیٹھاتابوت دیکھتا رہا۔۔۔
خدا خدا کر کے وقت آیا، جنازہ پڑھا گیا، نہیں جانتا کہ میرے محترم ، عزت مآب، سلطانِ جاتی عمراں کب تشریف لائے اور کیسے نماز جنازہ ادا کیا کیونکہ پروٹوکول میں مجھے تو وہ کہیں دکھائی ہی نہیں دے رہے تھے۔ جی ہاں، وہی وزیراعظم جنکی وجہ سے میرے شہید بھائی کا جنازہ نہیں ادا ہو پا رہا تھا۔کیوں؟ کیونکہ وہ اس اہم میٹنگ کو اٹینڈ کر رہے تھے جس سے ہمارا کوئی لینا دینا ہی نہیں تھا۔ وہ رات بھر اپنے نرم بستر میں آرام فرماتے رہے تھے دوسری جانب ہزاروں کی نفری انکی حفاظت کے لیے جدید ہتھیاروں سے لیس ان کی آرام گاہ کی حفاظت فرما رہی تھی جبکہ پولیس ٹرئینگ سنٹر کوئٹہ کی اس بلڈنگ میں جہاں 700 نہتے جوان صرف ایک گارڈ کے اسرے موت کا انتظار کر رہے تھے۔ وزیراعظم صاحب نے صبح ہوتے ہی تسلی کے ساتھ تیار ہو کر اپنا ناشتہ کیا ہوگا اور شہداء کے لواحقین رات بھر جاگنے کے بعدبھوکے پیاسے ہسپتالوں میں اپنے پیاروں کی تلاش کر رہے تھے۔ وزیراعظم صاحب جب میٹنگ پر تھے لواحقین شہداء ان کی آمد کے انتظار میں بیٹھے اپنے پیاروں کے تابوت تک رہے تھے۔
وزیراعظم صاحب نے اپنی مصروفیات میں سے بہت مشکل سے میرے بھائی کے جنازے کے لیے وقت نکالا تھامگر وہ ہیں کہاں مجھے جنازے کے بعد بھی کہیں دکھائی نہ دئیے ہاں البتہ رش میں سے وردی پہنے ایک شخص ضرور آتا دکھائی دیا تھا۔ کسی نے کہا وزیراعظم جا چکے ہیں اور چیف آف آرمی سٹاف شہداء کے ورثا ء سے افسوس کرنے آرہے ہیں۔ میرے دل نے کہا کہ " کیا مطلب؟ وزیراعظم کو افسوس کرنا منع ہے؟یا وہ پھر سے اپنی کسی اہم مٹینگ کے لیے روانا ہوگئے ہیں؟ اسی دوران آرمی چیف ہم سب کے درمیان آکر کھڑے ہوگئے، میرے آس پاس کھڑے لوگ ان کے سینے میں سر چھپا چھپا کر رو رہے تھے، آوازیں آرہیں تھیں "میرا اکلوتا بیٹا تھا" ، سر ظالموں نے میرا بڑا بھائی شہید کردیا" میں خاموشی سے دیکھ رہا تھا، وہ آگے بڑھے اور مجھے بھی گلے سے لگایا، میں کچھ نہ کہہ پایا، بس بے اختیار پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔۔۔ اس بار ایک دکھ سے بھری مگر مضبوط آواز میرے کانوں تک پہنچی "میں بھی شہید کا بھائی ہوں، آپکی کیفیت اچھی طرح سمجھتا ہوں" میرا دکھ جیسے یک لخت ساکن ہوگیا، میں نے ان کا چہرہ دیکھااور اپنا دکھ انکی آنکھوں میں مجھے دکھائی دینے لگا، ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی شفیق بڑا بھائی ہے جس نے مردوں کی طرح حوصلہ دیا۔۔۔۔
ایک شخص کہہ رہا تھا کہ میں تربت سے ہوں اتنی دور شہید کاجست خاکی کیسے لے جاؤنگا؟ پیچھے کھڑے جنرل صاحب بولے C130 ہیلی کا بندوبست کیا جا ئے اور پهر اسے فوری طور پر یقینی بنایا گیا ، اسی کے ذریعےدور درازمقیم شہداء کے جست خاکی پہنچائے جائیں گے۔۔۔ لوگ شکرگزار نگاہوں سے انہیں دیکھ رہے تھے۔ میں سوچ رہا تھا کہ کل کی اندھیری رات میں بھی یہی وردی والے تھے جو مسیحا 
لگ رہے تھے اور اس وقت دن کی روشنی میں بھی وردی والا ہی مسیحا بنا ہوا ہے۔ ۔۔۔

میرا بھائی تو واپس نہیں آنے والا، مگر جو رویہ جس نے میرے ساتھ رواں رکھا میں اسی کی بناء پر اپنی رائےضرور دونگا۔ وزیراعظم صاحب میری یہ تحریر آپ کے نام ہے، آپ کی ترجیحات پر سوالیہ نشان ہیں، 700 جوانوں کی رکھوالی کے لیے ایک گارڈ، آپکی رکھوالی کے لیے 700 گارڈز؟ آپ کی ترجیح آپ کی میٹنگ ہو سکتی ہے مگر میرے لیے میرے بھائی کا جنازہ وقت پر ادا ہونا ایک اہم ترین ترجیح تھی جس کو آپ نے ترجیح نہیں دی اور جسکے لیے میں امید کرتا ہوں کہ آپ مجھ سے معافی مانگیں

Saturday, 15 October 2016

گوادر کی اہمیت

‏گوادر پراجیکٹ امریکہ کی موت ہے جس کے لیے وہ پاکستان پر جنگ بھی مسلط کر سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! صحافی اسد کھرل کا تہلکہ خیز انکشاف- امریکی معیشت اس حد تک تباہ ہوچکی ہے کہ وہ چین سے قرض لینے پر مجبور ہے امریکہ چین سے بانڈز کی شکل میں قرض لیتا ہے جس پر وہ سود دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک اندازہ ہے کہ اگر امریکہ پر چین اپنے قرضے بند کر دے تو صرف دو یا تین ہفتوں میں امریکی معیشت جواب دے جائے گی ۔۔۔۔! اب تک امریکہ چین کا 3000 بلین ڈالر سے زائد کا مقروض ہو چکا ہے یاد رہے کہ پاکستان پر ٹوٹل قرضوں کا حجم 77 بلین ڈالر ہے۔۔۔۔۔۔۔! لیکن چین امریکہ کو قرضے دینے پر مجبور ہے وجہ یہ ہے کہ چین میں تیل نہیں ہے اور جن بحری راستوں سے چین اپنے ملک میں تیل سپلائی کرتا ہے وہ امریکہ اور انڈیا کنٹرول کر رہے ہیں ۔۔۔۔ چین کو اپنی تیز رفتار بڑھتی ہوئی معیشت کے لیے تیل کی سخت ضرورت ہے۔۔۔۔اگر ان راستوں کی ناکہ بندی کر کے چین کو تیل کی ترسیل روک دی جائے تو چینیی معیشت دھڑام سے نیچے آگرے گی۔۔۔۔۔! گوادر کو اگر آپ نقشے میں دیکھیں تو یہ ان خلیجی ممالک کے بلکل سامنے آتا ہے جہاں سے چین اپنی تیل کی ضروریات پوری کر سکتا ہے اس طرح چین امریکہ اور انڈیا کو بائی پاس کر لے گا نیز یہاں سے پاکستان اور چین مل کر انڈیا اور جاپان سمیت اس خطے کی ساری تجارت کو کنٹرول کر لیں گے کیونکہ کھلے سمندر میں 200 کلومیٹر تک کا علاقہ پاکستان کا ہے اور یہ علاقہ دنیا کی ساری آبادی کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! ( راحیل شریف نے پاکستان کی سمندری حدود میں 50 ہزار مربع کلومیٹر کا مزید اضافہ کر لیا ہے جس کے بعد یہ حدود بڑھ گئی ہیں) چین کو یہ روٹ مل جائے تو وہ کسی بھی وقت امریکہ کو قرض دینا بند کر سکتا ہے۔۔۔۔۔۔! اس خطرے کو محسوس کر کے ایک بار امریکہ افغانستان میں شاہراہ ریشم کے قریب میزائلز بھی فٹ کرنے کا پروگرام بنا چکا تھا جس پر پرویز مشرف نے فوراً اعلان کیا تھا کہ چونکہ پاکستان میں بجلی کی کمی ہے لہذا پاکستان ترکمانستان سے بجلی درآمد کرے گا بجلی کی وہ ٹرانسمیشن لائن امریکہ کی ممکنہ میزائل سسٹم کے اڈے کے قریب سے گزرنی تھی ساتھ ہی اعلان کیا کہ چونکہ افغانستان کے حالات محفوظ نہیں لہذا پاکستان اپنی ٹرانمیشن لائن کی حٖفاظت کے لئے وہاں پاک فوج تعینات کرے گا امریکہ مشرف کی اس چال کو سمجھ گیا اور اپنا منصوبہ ترک کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! آپ یہ بھی نوٹ کیجیے کہ ٹی ٹی پی کے پہلے امیر عبد اللہ محسود نے گونتانا موبے سے رہائی کے فوراً بعد سب سے پہلے گوادر پراجیکٹ پر کام بند کروانے کی کوشش کی تھی۔ گوادر دنیا کی سب سے گہری بندرگاہ ہے اور یہاں جہاز کو بیچ سمندر میں لنگر انداز کرنے کے بجائے عین کنارے پر لنگرانداز کیا جا سکتا ہے۔ جو ایک بہت بڑی سہولت ہے۔ پاکستان کے لیے یہ ایک بیش بہا فائدہ مند منصوبہ ہے۔ اس کے لیے آنے والی 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری محض چٹکی ہے اس کے مقابلے میں جو آنے والے دنوں میں پاکستان یہاں سے حاصل کر سکتا ہے۔ ایران کی گیس یہاں سے ہوتے ہوئے چین جا سکتی ہے۔ روس اور وسطی ایشائی ممالک کے لیے بھی یہ ایک اہم ترین بندگار بن سکتی ہے اور پاکستان ان ممالک کو بھی بذریعہ سڑک یا ریلوے لائن گوادر سے ملا سکتا ہے۔ چین کی سالانہ کئی سو ارب ڈالر کی ٹریڈ میں سے بہت بڑا حصہ یہاں سے ہو کر جائیگا۔ ان سارے ممالک کی اس تجارت کا ایک فیصد بھی پاکستان کو ملے تو پاکستان فوری طور پر تمام معاشی بحرانوں سے نکل آئیگا۔ ایران، روس اور چین جیسی طاقتیں سٹرٹیجکلی پاکستان پر انحصار کرینگی۔ گودار بھی آمریت ہی کا تحفہ ہے۔ یہ 1958 کے آمرانہ دور میں عمان سے خریدا گیا۔ بعد میں اس کو صوبہ بلوچستان کا حصہ بنا دیا گیا۔ اس پراجیکٹ کو باقاعدہ انداز میں شروع کرنا بلاشبہ مشرف حکومت کا کارنامہ تھا جس سے بعد میں آنے والی جمہوری حکومت نے مجرمانہ غفلت برتی۔ زرداری کے پانچ سالہ دور اس پر کام رکا رہا ۔۔۔۔۔۔۔ نواز شریف کی آمد تک اس پر خاموشی رہی بلکہ نواز شریف نے گوادر پراجیکٹ کے لیے ایران سے آنے والی گیس پائپ لائن منصوبے پر کام بند کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔ راحیل شریف جب آرمی چیف بنا تو اس نے چند ماہ بعد یک دم گوادر پراجیکٹ اور اس کے لیے قائم کی جانی والی راہداری پر نہایت جارحانہ انداز میں کام شروع کر دیا۔ اس سلسلے میں راحیل شریف نے بلوچستان میں ایک وسیع آپریشن کر کے نہ صرف اس منصوبے کے خلاف ہونے والی سازشوں کا قلع قمع کیا بلکہ جب انڈیا نے گوادر کو غیر محفوظ قرار دیتے ہوئے ایران کی چاہ بہار کو چین کے سامنے پیش کرنا شروع کیا تو راحیل شریف نے معاشی رہداری پر بغیر سیکورٹی کے سفر کر کے دکھایا اور فوری طور پر چین کا دورہ کر کے اس کے تحفظات کو بھی دور کیا۔ گوادر پراجیکٹ کے لیے قائم کی جانے والی رہداری پر بلوچستان میں پاک فوج کے زیر نگرانی کام نہایت تیزی سے جاری ہے لیکن پنجاب اور خیبر پختنوخواہ میں سیاسی قیادت میں موجود اختلافات کی وجہ سے اس پر کام کی رفتار کافی سست ہے۔ نواز شریف نے منصوبے کی تفصیلات چھپا کر اس کو مشکوک کیا تو عمران خان اور فضل الرحمن وغیرہ نے اس پر کام ہی بند کروانے کا عندیہ دے دیا۔ اللہ عمران خان اور مولانا صاحب کو عقل سلیم دے۔ اس منصوبے کے لیے وہ جن اضافی روٹس پر اعترضات کر رہے ہیں وہ اب بھی کم ہیں۔ یہاں جتنی ہیوی ٹریفک آنی ہے شائد یہ 3 روٹس بھی اس کے لیے کم پڑ جائیں۔ اس پراجیکٹ کو ہر حال میں اور نہایت تیزی سے مکمل کیا جانا چاہئے۔ جتنا وقت ضائع ہوچکا وہ بھی ناقابل تلافی ہے۔ بعض سیاست دانوں اور نام نہاد لیڈروں کی گوادر پراجیکٹ کی مخالفت سے انکی حب الوطنی ،امریکہ سے وفاداری اور انکے سیاسی شعور کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! آئی ایم ایف سے بھاری قرضے لینے کے بعد گوادر اور اس کے لیے قائم کی جانے والی راہداری پر خاموشی، گوادر پرجیکٹ تباہ کرنے کے مشن پر آئے ہوئے کل بھوشن پر خاموشی موجودہ حکومت پر ایک سوالیہ نشان ہے!

Sunday, 11 September 2016

راجناتھ سنگھ کی انسانیت…تحریر :سعد سالار

انڈین وزیر داخلہ راجناٹھ سنگھ نے مقبوضہ کشمیر میں آل پارٹیز وفد سے نہ ملنے پر کشمیری حریت قیادت کو تنقید کا نشانہ بناتے کہا کہ کشمیر ہندوستان کا تھا، ہے اور رہے گا مزید انھوں نے کہا کہ حریت لیڈران نے آل پارٹی وفد کے ساتھ اپنے رویے سے ظاہر کیا کہ وہ کشمیریت، انسانیت اور جمہوریت پر یقین نہیں رکھتے جبکہ خود بھارتی وزیر داخلہ کی جمہوریت اور انسانیت کا یہ عالم ہے کہ صرف دو دن میں ان کے حکم پر پانچ سو زیادہ بیگناہ نوجوانوں کو راتوں رات گھروں سے اٹھا کر بھارت کی دور دراز جیلوں میں بند کر دیا گیا جبکہ کشمیر کی جیلوں پہلے ہی بیگناہوں سے بھری ہیں آٹھ جولائی کو نوجوان عسکریت پسند برہان وانی کی انڈین سکیورٹی فورسز کے ساتھ مبینہ تصادم میں شہادت کے بعد سے کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ اس دوران پرتشدد واقعات میں نوے افراد شہید اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں سینکڑوں افراد کی آنکھوں ضائع ہوچکی ہیں ہسپتال زخمیوں سے بھرے ہیں بچے بوڑھے جوان سب بھارتی مظالم ک شکار ہو رہے ہیں جبکہ وادی میں تقریباً آٹھ ہفتے سے کرفیو نافذ ہے ان آٹھ ہفتوں میں بھارتی مظالم میں تیزی کے باوجود آزادی کی تحریک مضبوط ہو رہی ہے کرفیو کے باوجود ہزاروں افراد روزانہ سڑکوں پر اپنا حق خودارادیت حاصل کرنے کے لیے اختجاجی مظاہرے کرتے ہیں جن پر راجناٹھ سنگھ کے جمہوریت پسند اور انسانیت کے وکیل لاٹھی چارج آنسو گیس شیل فائر کرنے کے ساتھ بدنام زمانہ پیلٹ گن کے فائرکرتے ہیں جس روزانہ لوگوں کی جانیں جا رہی ہے لیکن کشمیریوں کے جوش جذبے میں کمی آنے کی بجائے اور تیزی آ رہی ہے مظاہروں میں شہید ہونے والوں کے جنازے پر کرفیو کے باوجود ہزاروں لوگ جمع ہو کر پرامن احتجاج کرتے ہیں اور شہدا کی تدفین کرکے پھر اسی جذبے سے احتجاج کرنے لگتے ہیں جن علاقوں میں لوگ کرفیو میں باہر نہیں نکلتے وہاں راجناٹھ سنگھ کے جمہوریت پسند لوگوں کے گھروں پر پتھراو کرکے انکو باہر نکلنے پر مجبور کرتے ہیں تاکہ راجناٹھ سنگھ کے بتائے ہوئے انسانیت کے اصول کے مطابق انکا خون بہایا جائے۔ اسی ہفتے راجناٹھ سنگھ کے بتائے ہوئے جمہوریت کے اصولوں کے عین مطابق کرفیو کے باعث گھروں میں محصور کشمیریوں کی گاڑیوں کو اور دکانوں کو آگ لگا کر پوری دنیا کو بتایا کہ جمہوریت اسے کہتے ہیں آل پارٹیز وفد کی کشمیر آمد پر مقبوضہ وادی کے ضلع شوپیاں میں پرامن احتجاجی ریلی نکالنے والوں نکالنے والوں پر سیدھی فائرنگ کرکے تین سو سے زائد افراد زخمی ایک سو سے زائد شدید زخمی اور کئی افراد کو جانوں سے مار کر مثال دکھا کر راجناٹھ سنگھ کو دکھایا کہ سر آپکے انسانیت کے اصول پر عمل جاری اور بھارتی وزیر داخلہ نے شاباش دے کر اطمینان کا اظہار کیا کہ کشمیر میں بھارتی فوج انسانیت کا پرچار کر رہی ہے کچھ دن پہلے بھارت میں انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل پر مقدمے درج کرکے انکو بتایا کہ ہم تم سے زیادہ انسانی حقوق کے نمائندے ہیں کچھ دن پہلے پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد میں ہونے والے سارک وزرائے داخلہ کے اجلاس میں کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر مبنی رپورٹ سن کر اجلاس میں سے بھاگنے والے وزیر داخلہ نے بھارت پہنچ کر بھارتی فوج کو انسانیت کے مزید لیکچر دیے جس کے بعد ہی بھارتی فوج نے انسانیت کا پرچار کرتے ہوئے لوگوں کو گھروں سے نکال نکال کر مارنا شروع کر دیا۔ اچھی طرح کشمیریوں کی نسل کشی کرنے کے بعد زخمیوں سے ہسپتالوں کو بھرنے کے بعد سینکڑوں کشمیریوں کو شہید کرنے کے بعد پوری دنیا میں احتجاجی مظاہروں کے باعث پوری دنیا کا دباو آنے کے باعث بھارتی حکومت نے نیا ڈرامہ کرتے ہوئے ایک آل پارٹیز وفد کشمیر بھیج دیا لیکن جس کے پیاروں کو جان سے مار دیا گیا ہو جن پر مسلسل بدترین مظالم ڈھائے جا رہے ہوں جن کی خوراک ادویات دو ماہ سے بند ہوں جو بھوک سے زخموں سے چور ہوں کیا وہ اسی ظالم سے بات کرنا پسند کریں گے؟؟؟ یقینا انسانیت کا پرچار کرنے والے راجناٹھ سنگھ اور بھارتی حکومت کے علاوہ تمام لوگوں کا جواب ناں میں ہی ہوگا بھارتی وزیر داخلہ کی انسانیت کا یہ عالم ہے کہ ساٹھ دنوں سے خوراک ادویات ضروریات زندگی کی ہر چیز کو کشمیر جانے سے روک دیا گیا ہے بھارتی وزیر داخلہ کی جمہوریت کا یہ عالم ہے کہ دو مہینے سے کشمیر میں انٹرنیٹ موبائل سروس بند کی گئی ہے جبکہ اخبارات نیوز چینل پر پابندی لگا دی گئی چھاپہ خانوں پر آرمی نے قبضہ کرکے بند کر دئیے تاکہ پوری دنیا میں انکی جمہوریت انسانیت کا پتا نہ لگ سکے ۔ آزادی ہر قوم کا بنیادی حق ہے، اس سے کسی کو محروم رکھنا کسی بین لاقوامی ادارے کے اختیا ر میں نہیں۔کشمیری مسلمانوں کی تحریک آزادی میں شدت آ جانے سے بھارتی حکمرانوں میں جنم لینے والی بوکھلاہٹ اور افراتفری سے انتظامی و سیاسی معاملات و امور میں جذباتی و نفسیاتی کیفیت نے ایک ایسی تلخی سی پیدا کر دی ہے جسے دیکھ کر یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ بھارتی حکمران کس قدر مضطرب اور کرب و ابتلاء سے دوچارہیں۔آل انڈیا ریڈیو بھارتی اخبارات و رسائل کے اداریوں اور کالموں کے اقتباسات پر مشتمل تبصروں اور تجزیوں کا لب لباب صرف یہی ہوتا ہے کہ پاکستان کشمیر میں دہشت گردی اور تخریب کاری میں ملوث ہے۔حالا نکہ حقیقت قطعی اس کے برعکس ہے کہ بھارتی حکمران دراصل کشمیری مسلمانوں کے قتل عام کو چھپانے کے لیے مختلف نوع کے منفی پروپیگنڈہ کے ذریعے دنیا کی نظروں میں دھول جھونکنے کی ناکام سعی کرنے میں مصروف ہیں۔ وائس آف امریکہ کے ایک تبصرہ نگارکا کہنا ہے کہ حقوق انسانی کی دو بین الاقوامی تنظیموں نے کشمیریوں پر ہونے والے منظم جبرو تشدد کے بارے میں تفصلی رپورٹیں تیار کی ہیں۔ ان رپورٹوں میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارتی سکیورٹی فورسز اور مسلح افواج نوجوان کشمیری مسلمانوں کو مختلف نوع کے تشدد کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار رہی ہیں۔خواتین کی بے حرمتی اور اجتماعی عصمت دری کے واقعات میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔بچوں کو زندہ جلانے کے واقعات بھی عام ہو رہے ہیں۔رپورٹ کے مطابق بھارت میں انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں سے یہ حقیقت عیاں ہوتی نظر آتی ہے کہ بھارتی حکمران کشمیریوں کی جنگ آزادی کی منظم و متحرک تحریک سے اس قدر خوفزدہ ہیں کہ بوکھلاہٹ میں ایسے شرمناک اور ہولناک ہتھکنڈے استعمال میں لا رہے ہیں جو جلتی پر تیل کا کام کر رہے ہیں جن سے انسانیت منہ چھپائے پھرتی ہے۔بھارتی حکمرانوں کو شاید عسکری وسائل کے نشے میں کچھ سمجھ نہ آ رہی،دانش و ر طبقہ اور بعض ممتازصحافیوں نے بھی بھارتی حکمرانوں کو عقل کے ناخن لینے کا کہا ہے لیکن یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی بھارتی حکمرانوں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں بس ایک ہی رٹ لگا رکھی ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں مسلح مداخلت کرنے سے بازر ہے۔ دنیا کو بے و قوف بنانے کی بھارتی حکمرانون کی متعدد کوششیں ناکامی سے دوچار ہو چکی ہیں لیکن ڈھیٹوں کی طرح وہ پاکستان پر الزام تراشی کو اپناوطیرہ اور فریضہ بنا چکے ہیں۔بھارتی حکمرانوں نے کشمیریوں پر ہونے والے وحشیانہ اور بہیمانہ ظلم و زیادتی کے واقعات پر پردہ ڈالنے کی جتنی بھی آج تک کوششیں کی ہیں وہ سب کی سب ناکام ہوئی ہیں۔چند سال قبل اسلامی کانفرنس کی طرف سے نامزد مبصروں کو مقبوضہ کشمیر میں جانے کی اجازت نہ دینا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ بھارتی حکمران اپنی کرتوتوں اور سیاہ کاریوں سے کسی کو آگاہی نہیں کرانا چاہتے۔بھارتی فوجیوں کے ساتھ مجاہدین کشمیر کی مسلح جھڑپوں اور کشمیریوں کی ایک بھاری تعداد کی طرف سے بھارتی حکمرانوں اور مسلح افواج و پولیس کے خلاف شدید نفرت بھی اس بات کی کھلی علامت ہے کہ کشمیری آزادی چاہتے ہیں اور پاکستان سے الحاق ان کی دلی خواہش ہے جس کو بھارتی حکمران قبول کرنے کو قطعی طور پر تیار نہیں۔ امریکہ کشمیر کے مسئلہ پر بھی اپنا حل زبردستی ہم پر ٹھونسنا چاہتا ہے جس کا سارا فائدہ بھارت کو پہنچنے کی امید ہے۔ کیونکہ امریکہ کی تمام تر ہمددیاں بھارت کے ساتھ ہیں۔پاکستان کے ساتھ تو اس کے مفادات وابستہ ہیں جبکہ بھارت کے ساتھ اس کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ہم سے امریکہ مطلب نکلتے ہی ہاتھ اٹھا لے گا۔ اس لیے ہمیں کشمیرکے مسئلہ پر کسی بھی زبردستی حل کو مسترد کرنا ہو گا۔ اور پسپائی اختیار کرنے کی بجائے اسے کشمیریوں کی رائے کے عین مطابق حل کرنے پر ہی زور دینا ہو گا۔ کیونکہ یہی رستہ منزل کی طرف جاتا ہے اور صحیح رستہ ہے۔ اگر ہم یونہی ہر مسئلے پرپسپائی اختیار کرتے رہے جھکتے رہے تو وہ دن دور نہیں ہے۔جب ہماری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں۔

Thursday, 21 April 2016

لہو لہو ارض کشمیر۔۔۔سعد سالار



سانحوں ،المیوں ، اور سازشوں کی سرزمین کشمیر میں قتل و غارت کوئی نئی بات نہیں ۔ وقت وقت پر یہاں قانون کے محافظ ہونے کا دعوی رکھنے والوں کے ہاتھوںقانون کی عزت ریزہ ریزہ ہوتی آئی ہے۔ جن وردی پوشوں کو سیکورٹی فورسز کہا جاتا ہے وہ افسپا کے قانون کی آڑ میں اہلیان کشمیر کے جان و مال سمیت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث رہے ہیں ۔ نوے کی دہائی میں حول کدل کے قتل عام سے لیکر کنن پوش پورہ کی شرمناک داستان تک ، سوپور اور بجبہاڑہ سے لیکر ہندواڑہ کے خون تک یہی ایک کہانی بنتی رہی ہے ۔ نہتے لوگوں پر بندوق کے دہانے کھولے بغیر خون کے پیاسے انڈین آرمی کے اہلکاروں کو بھلا سکون میسر کیوں آئے جب تک کسی بیگناہ اور معصوم کے سینے کو چھلنی کرکے وہ اپنی بربریت کی دھاک نہ بٹھا لیں۔ 21 اپریل کو شمالی کشمیر کے قصبے ہندواڑہ میں معمولات زندگی کے کام میں لوگ مصروف تھے کسی کو ذرا سا معمولی سا خیال بھی نہیں ہوگا کہ اس قصبے پر ایک ناگہانی مصیبت آنے والی ہے ۔یہ بستی ایک دم اس وقت ابل پڑی جب ایک طالبہ کے ساتھ ایک فوجی اہلکار کی مبینہ دست درازی کے خلاف لوگ احتجاج کرنے لگے۔احتجاجی لوگ پولیس اسٹیشن کے سامنے اس اہلکار کی اخلاق سوز اور گری ہوئی حرکت پرغیرت کے ہاتھوں مجبور ہوکر مطالبہ کر رہے تھے کہ ملوث اہلکار کو فورا گرفتار کرلیا جائے ایسا مطالبہ کرنا عوام کا حق تھا ۔ مظاہرین پولیس اور گورنمنٹ سے مطالبہ کر رہے تھے کہ معاملے کے ضمن میں قانونی کاروائی کی جائے۔مظاہرین نے قانون کو کسی صورت ہاتھ میں نہ لیا بجائے اسکے کہ انتظامیہ اور پولیس سنجیدگی سے اس معاملے پر غور کرتے فوج اور پولیس نے اپنی بندوقوں کے دہانے کھول مظاہرین اور راہ گیروں پر اندھا دھند گولیاں برسانی شروع کر دیں ۔ جس سے موقع پر ہی درجنوں لوگ زخمی ہوگئے ان میں سے دو نوجوان موقع پر ہی شہید ہو گئے۔شام ہونے تک ایک عمر رسیدہ خاتون بھی دم توڑ گئی۔ہلاکتوں پر لوگوں میں غم و غصے کی لہر دوڑگئی انہوں نے اس ظلم جبر کی داستان کے خلاف مظاہرے کرنے شروع کر دیے۔مشتعل مظاہرین نے ایک چیک پوسٹ پر انڈین پرچم اتار کر پاکستانی پرچم لہرا دیا۔لوگوں کا احتجاج بالکل جائز تھا لیکن پولیس نے ایک بار پھر مظاہرین پر ٹیئر گیس کی شیلنگ کی جس سے مزید افراد زخمی ہو ئے۔اگلے روز جب شہید ہونے والے نوجوان کی نماز جنازہ ادا کی جا رہی تھی تو جنازہ میں شامل لوگوں نے احتجاج کیا تو پولیس نے ایک بار پھر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی جس سے ایک اور معصوم شہید ہو گیا ۔یہ گویا جلتی پر تیل کا کام تھا۔ ایک جانب پولیس اور فورسز کو صبر و تحمل کرنے کے جھوٹے بیان دیے جا رہے تھے تو دوسری طرف یہی وردی پوش نہتے لوگوں پر اسی انداز میں حملے کر رہے تھے جیسے گویا کسی منظم فوج سے انکا مقابلہ ہو رہا ہے۔ چار معصوموں کو شہید اور درجنوں کو زخمی کرنے کے بعد اس واقعے کی جھوٹی کہانیاں رچی گئیں سانحے کے پہلے ہی دن مبینہ زیادتی کی شکار لڑکی اور اسکے والد کو گرفتار کرکے ان سے زبردستی وڈیو بنوائی جس میں لڑکی پولیس اور آرمی کو بری الزمہ قرار دیتی نظر آئی اور سارا ملبہ شہید ہوئے نوجوانوں پر ڈال دیا ۔اس وڈیو کو انڈین آرمی اور کٹھ پتلی گورنمنٹ نے اپنی بیگناہی کے لیے استعمال کیا لیکن کشمیری ایسی جھوٹی کہانیوں اور شاطرانہ چالوں سے بخوبی آگاہ تھے اگر اس وڈیو کو کسی عام شخص نے بنایا ہوتا تو اس پر سائبر کرائم کی دفعہ لگا کر کب کا جیل میں بند کر دیا جاتا مگر حکومت یہ کام کرے تو قانون پتا نہیں کیوں خاموش ہو جاتا ہے ؟اسکی شاید وضاحت کی ضرورت نہیں ۔اس سلسلے میں کئی سوالات نے جنم لیا مثلا اگر لڑکی نے پولیس یا مجسٹریٹ کے سامنے بیان دیا تو یہ کس قانون سے جائز ہے کہ اس لڑکی کی شناخت اور بیان کو پوری دنیا میں اچھالا جائے ۔ دلی میں عصمت دری معاملے میں جو مظلوم لڑکی عالمی میڈیا میں موضوع بنی رہی اس کی موت کے بعد بھی دنیا اسکا نام اور شناخت نہیں جانتی مگر اس طرح کے قانون کے کشمیر میں معنی ہی کیوں تبدیل ہو جاتے ہیں ؟ مگر کشمیر کی پولیس اور مجسٹریٹ نہ صرف لڑکی کی شناخت ظاہر کرتے ہیں بلکہ اسکی وڈیو کو بھی گھر گھر پہنچانے کے مجرمانہ عمل کا ارتکاب بھی بڑے شوق سے کرتی ہے ۔یہ غیر قانونی ایکشن بتاتا ہے کہ دال میں کچھ تو کالا ہے جس کو دنیا سے چھپایا گیا اور دیکھنے کو ملا کہ کس طرح اس حساس معاملے میں جلد بازی کرکے پولیس نے آرمی کو کلین چٹ دی شاید جموں کشمیر پولیس این آئی ٹی کے پس منظر میں دلی میں بیٹھے آقائوں کے سامنے اپنی مجروح ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے زیادہ وفاداری دکھا رہی ہے حد تو یہ ہے کی تادم تحریر لڑکی اور اسکا باپ پولیس حراست میں ہے جبکہ لڑکی کی ماں نے میڈیا کو بیان دے کر کشمیر کی کٹھ پتلی گورنمنٹ کے کالے کرتوت کا پول کھول دیا کہ لڑکی کو گن پوائنٹ پر بیان دینے پر مجبور کیا گیا ۔یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ انڈین آرمی کے بدمعاشوں نے افسپا کے تحت نہتے کشمیریوں کے سینے گولیوں سے چھلنی کیے بلکہ گزشتہ دو دہائیوں سے کشمیر میں یہ خونی کھیل کھیلا جا رہا ہے سات لاکھ سے زائد فوج اس چھوٹے سے خطے میںمسلط کی گئی انکو خصوصی اختیارات بھی دیے گئے تاکہ وہ کشمیری عوام کے ساتھ غلاموں والا اپنی مرضی کا سلوک کریں۔دنیا کا سب سے بڑا غاصب ملک امریکہ ہے جس نے گزشتہ دو دہائیوں سے بیشتر مسلم ملکوں پر قبضہ کرکے وہاں اپنی فوجیں مسلط کیں ۔افغانستان کا ایک چھوٹا سا صوبہ بھی کشمیر سے کئی گنا بڑا ہے لیکن افغانستان جیسے بڑے ملک میں بھی امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی صرف تین لاکھ فوج رہی ہے جب کہ اسکے برعکس جموں کشمیر جیسے چھوٹے سے علاقے میں فوج نیم فوجی دستے اور پولیس کو ملا کر یہ تعداددس لاکھ سے تجاوز کر جاتی ہے ۔انڈیا کا میڈیا منفی پراپیگنڈا کرکے فوج اور نیم فوجی دستوں کے ذہن میں یہ بات بٹھا دیتا ہے کہ کشمیر میں انکی لڑائی صرف کشمیری عوام سے ہے اس لیے وقت وقت پر کشمیر میںیہ غاصب فوج ہر وقت قتل و غارت کے بہانے تلاش کرتی رہتی ہے ۔ بوڑھے باپ اپنے جوان بیٹوں کے جنازے اٹھا رہے ہیں نئی نسل کو شہید کرکے کشمیریوں کی نسل کشی کی جارہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ایک چھوٹا سا بچہ بھی پتھر اٹھا کر غاصب آرمی پر مارتا ہے۔ان حالات میں پاکستانی عوام خصوصا گورنمنٹ کا فرض بنتا ہے کہ وہ ان کشمیریوں کی مدد کرکے انکو غلامی کے ان اندھیروں سے نکالیں۔