میں کیسے نه کہوں پاک آرمی زنده باد.....
میں کیسے نه کہوں که جنرل راحیل شریف
جانے کی باتیں ....... اب جانے دو
میں کیسے نه کہوں که جنرل راحیل شریف
جانے کی باتیں ....... اب جانے دو
رات بھر گولیوں کی گرج اورپیاروں کی آہ و پکار، اپنوں کے کھو جانے اور شائد ہمیشہ کے لیے لگ جانے والے معذوری کے روگ کی سوچوں میں ڈوبی گولیوں کی بھونچار میں گزرتی تاریک رات کے ایک ایک پل میں خود کو جیتا اور مرتا محسوس کر رہا تھا۔ وہ میرا بھائی تھا، مگر بھلے اکیلا نہ تھا، اس کے ساتھ سینکڑوں ساتھی بھی پولیس ٹرئینگ سینٹر کوئٹہ کی بلڈنگ میں موجود تھے۔۔۔
رات کے سناٹے میں دور دور تک سنائی دینے والی گولیوں کی گونج ۔۔۔لگتا تھا کہ ایک ایک گولی میری ہی کنپٹی پر نشانہ بنا کر چلائی جارہی ہے۔ صبح تک وہ قیامت کی گھڑیاں کیسے گزریں میں جانتا ہوں یا میرا خدا جانتا ہے۔بھاگتے دوڑتے وردی میں ملبوس، ہتھیاروں سے لیس وہ اونچے لمبے جوان میرے اور مجھ جیسے سینکڑوں بے بس اور لاچار کھڑے ہجوم کی ایک واحد امید تھے۔
وقت گزرتا گیا، ہسپتال میں زخمیوں اور شہداء کی شناخت کرتے کرتے سانسیں اکھڑتی محسوس ہو رہی تھیں۔ سب جانتے بوجھتے بھی جب نظر اپنے بھائی کی خون سے لت پت جست خاکی پر پڑی تو زندگی میں پہلی بار احساس ہوا کہ پیروں تلے سے زمین نکلتی کیسے ہے۔۔لمحے بھر کے لیے تو اپنے جسم کو ہلانے کی سکت تک باقی نہ بچی تھی۔ اتنا یاد ہے کہ کسی اللہ کے بندے نے مجھے میرے دونوں کندھوں سے پکڑ کر سہارا دیا تھا۔ میرے خشک اور پھٹے ہوئے ہونٹوں پر پانی کا گلاس لگایا تھا جسکا میں مشکل سےصرف ایک گھونٹ اندر کر پایا تھا ۔۔۔۔
رفتہ رفتہ دوست احباب اور چند رشتےدار مدد کو آن پہنچے تھے۔ اہل خانہ کی فون کالز سننےتک کی اب ہمت نہیں جُتا پا رہا تھا۔۔۔سارا دن جیسے تیسے کرتا گزرتا گیا۔ میں اپنے بھائی کاکفن میں لپٹا جسم تابوت میں جاتا ہوا دیکھ رہا تھا۔ بچپن کی یادیں، آنکھوں میں نمی، کانپتے لبوں سے سوچ رہا تھا کہ جس بھائی کو گود میں کھیلاتا رہا تھا وہ رات بھر کس قیامت سے گزرا ہوگا۔۔۔ کیا اس کو اتنا موقع ملا ہو گا کہ خود کو بچا سکے؟ کیا اس نے گھر فون کرنے کی کوشش کی ہو گی؟ کیا اس نے کسی کو بچاتے بچاتے جان دی ہوگی؟ جب موت اسکی پرچھائی بنی اس کے ساتھ ساتھ بھاگ رہی تھی وہ منظر کتنا کرب ناک ہوگا؟؟؟
میں سوچوں میں گم تھا کہ کانوں کو چھو کر ایک بھاری سی آواز گزری "اوئے دلاور،جنازہ ابھی روک لے،وزیراعظم میٹنگ کی وجہ سے تھوڑا لیٹ آئیں گے "۔ میرا بھائی اس دنیا سے جا چکا تھا، میں جانتا ہوں کہ اسکی لاش کو وزیراعظم کے آنے یا نہ آنے سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا تھا۔ اسے اس بات سے قطعاً کوئی غرض نہیں تھی کہ وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی اہم میٹنگ زیادہ ضروری ہے یا اس کا جنازہ وقت پر پڑھے جانا زیادہ ضروری ہے البتہ میرے لیے ایک ایک پل قیامت سے کم نہ تھا۔۔ میں خاموش رہا، کچھ دیر بعد وہی آواز کانوں کو پھر سے سننی پڑ گئی جس نے کچھ ہی دیر پہلے میرے زخموں کو کُریدہ تھا "وزیراعظم کی میٹنگ ختم ہو گئی ہے وہ کچھی ہی دیر میں روانہ ہو جائیں گے، جنازے کی تیاری پکڑو" یعنی مرا میرا بھائی اورجنازے کے لیے انتظار وزیراعظم کا ہو رہا ہے؟ وہ بھی وہ وزیراعظم جنکی اس وقت کی ترجیح میٹنگ اٹینڈ کرنا تھی! اپنی کیفیت کو الفاظ کا لباس اوڑھنے کے لیے میرے پاس لغت کی کمی ہونے لگی تھی، بس میں خاموشی سے فرش پر بیٹھاتابوت دیکھتا رہا۔۔۔
خدا خدا کر کے وقت آیا، جنازہ پڑھا گیا، نہیں جانتا کہ میرے محترم ، عزت مآب، سلطانِ جاتی عمراں کب تشریف لائے اور کیسے نماز جنازہ ادا کیا کیونکہ پروٹوکول میں مجھے تو وہ کہیں دکھائی ہی نہیں دے رہے تھے۔ جی ہاں، وہی وزیراعظم جنکی وجہ سے میرے شہید بھائی کا جنازہ نہیں ادا ہو پا رہا تھا۔کیوں؟ کیونکہ وہ اس اہم میٹنگ کو اٹینڈ کر رہے تھے جس سے ہمارا کوئی لینا دینا ہی نہیں تھا۔ وہ رات بھر اپنے نرم بستر میں آرام فرماتے رہے تھے دوسری جانب ہزاروں کی نفری انکی حفاظت کے لیے جدید ہتھیاروں سے لیس ان کی آرام گاہ کی حفاظت فرما رہی تھی جبکہ پولیس ٹرئینگ سنٹر کوئٹہ کی اس بلڈنگ میں جہاں 700 نہتے جوان صرف ایک گارڈ کے اسرے موت کا انتظار کر رہے تھے۔ وزیراعظم صاحب نے صبح ہوتے ہی تسلی کے ساتھ تیار ہو کر اپنا ناشتہ کیا ہوگا اور شہداء کے لواحقین رات بھر جاگنے کے بعدبھوکے پیاسے ہسپتالوں میں اپنے پیاروں کی تلاش کر رہے تھے۔ وزیراعظم صاحب جب میٹنگ پر تھے لواحقین شہداء ان کی آمد کے انتظار میں بیٹھے اپنے پیاروں کے تابوت تک رہے تھے۔
وزیراعظم صاحب نے اپنی مصروفیات میں سے بہت مشکل سے میرے بھائی کے جنازے کے لیے وقت نکالا تھامگر وہ ہیں کہاں مجھے جنازے کے بعد بھی کہیں دکھائی نہ دئیے ہاں البتہ رش میں سے وردی پہنے ایک شخص ضرور آتا دکھائی دیا تھا۔ کسی نے کہا وزیراعظم جا چکے ہیں اور چیف آف آرمی سٹاف شہداء کے ورثا ء سے افسوس کرنے آرہے ہیں۔ میرے دل نے کہا کہ " کیا مطلب؟ وزیراعظم کو افسوس کرنا منع ہے؟یا وہ پھر سے اپنی کسی اہم مٹینگ کے لیے روانا ہوگئے ہیں؟ اسی دوران آرمی چیف ہم سب کے درمیان آکر کھڑے ہوگئے، میرے آس پاس کھڑے لوگ ان کے سینے میں سر چھپا چھپا کر رو رہے تھے، آوازیں آرہیں تھیں "میرا اکلوتا بیٹا تھا" ، سر ظالموں نے میرا بڑا بھائی شہید کردیا" میں خاموشی سے دیکھ رہا تھا، وہ آگے بڑھے اور مجھے بھی گلے سے لگایا، میں کچھ نہ کہہ پایا، بس بے اختیار پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔۔۔ اس بار ایک دکھ سے بھری مگر مضبوط آواز میرے کانوں تک پہنچی "میں بھی شہید کا بھائی ہوں، آپکی کیفیت اچھی طرح سمجھتا ہوں" میرا دکھ جیسے یک لخت ساکن ہوگیا، میں نے ان کا چہرہ دیکھااور اپنا دکھ انکی آنکھوں میں مجھے دکھائی دینے لگا، ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی شفیق بڑا بھائی ہے جس نے مردوں کی طرح حوصلہ دیا۔۔۔۔
ایک شخص کہہ رہا تھا کہ میں تربت سے ہوں اتنی دور شہید کاجست خاکی کیسے لے جاؤنگا؟ پیچھے کھڑے جنرل صاحب بولے C130 ہیلی کا بندوبست کیا جا ئے اور پهر اسے فوری طور پر یقینی بنایا گیا ، اسی کے ذریعےدور درازمقیم شہداء کے جست خاکی پہنچائے جائیں گے۔۔۔ لوگ شکرگزار نگاہوں سے انہیں دیکھ رہے تھے۔ میں سوچ رہا تھا کہ کل کی اندھیری رات میں بھی یہی وردی والے تھے جو مسیحا لگ رہے تھے اور اس وقت دن کی روشنی میں بھی وردی والا ہی مسیحا بنا ہوا ہے۔ ۔۔۔
رات کے سناٹے میں دور دور تک سنائی دینے والی گولیوں کی گونج ۔۔۔لگتا تھا کہ ایک ایک گولی میری ہی کنپٹی پر نشانہ بنا کر چلائی جارہی ہے۔ صبح تک وہ قیامت کی گھڑیاں کیسے گزریں میں جانتا ہوں یا میرا خدا جانتا ہے۔بھاگتے دوڑتے وردی میں ملبوس، ہتھیاروں سے لیس وہ اونچے لمبے جوان میرے اور مجھ جیسے سینکڑوں بے بس اور لاچار کھڑے ہجوم کی ایک واحد امید تھے۔
وقت گزرتا گیا، ہسپتال میں زخمیوں اور شہداء کی شناخت کرتے کرتے سانسیں اکھڑتی محسوس ہو رہی تھیں۔ سب جانتے بوجھتے بھی جب نظر اپنے بھائی کی خون سے لت پت جست خاکی پر پڑی تو زندگی میں پہلی بار احساس ہوا کہ پیروں تلے سے زمین نکلتی کیسے ہے۔۔لمحے بھر کے لیے تو اپنے جسم کو ہلانے کی سکت تک باقی نہ بچی تھی۔ اتنا یاد ہے کہ کسی اللہ کے بندے نے مجھے میرے دونوں کندھوں سے پکڑ کر سہارا دیا تھا۔ میرے خشک اور پھٹے ہوئے ہونٹوں پر پانی کا گلاس لگایا تھا جسکا میں مشکل سےصرف ایک گھونٹ اندر کر پایا تھا ۔۔۔۔
رفتہ رفتہ دوست احباب اور چند رشتےدار مدد کو آن پہنچے تھے۔ اہل خانہ کی فون کالز سننےتک کی اب ہمت نہیں جُتا پا رہا تھا۔۔۔سارا دن جیسے تیسے کرتا گزرتا گیا۔ میں اپنے بھائی کاکفن میں لپٹا جسم تابوت میں جاتا ہوا دیکھ رہا تھا۔ بچپن کی یادیں، آنکھوں میں نمی، کانپتے لبوں سے سوچ رہا تھا کہ جس بھائی کو گود میں کھیلاتا رہا تھا وہ رات بھر کس قیامت سے گزرا ہوگا۔۔۔ کیا اس کو اتنا موقع ملا ہو گا کہ خود کو بچا سکے؟ کیا اس نے گھر فون کرنے کی کوشش کی ہو گی؟ کیا اس نے کسی کو بچاتے بچاتے جان دی ہوگی؟ جب موت اسکی پرچھائی بنی اس کے ساتھ ساتھ بھاگ رہی تھی وہ منظر کتنا کرب ناک ہوگا؟؟؟
میں سوچوں میں گم تھا کہ کانوں کو چھو کر ایک بھاری سی آواز گزری "اوئے دلاور،جنازہ ابھی روک لے،وزیراعظم میٹنگ کی وجہ سے تھوڑا لیٹ آئیں گے "۔ میرا بھائی اس دنیا سے جا چکا تھا، میں جانتا ہوں کہ اسکی لاش کو وزیراعظم کے آنے یا نہ آنے سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا تھا۔ اسے اس بات سے قطعاً کوئی غرض نہیں تھی کہ وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی اہم میٹنگ زیادہ ضروری ہے یا اس کا جنازہ وقت پر پڑھے جانا زیادہ ضروری ہے البتہ میرے لیے ایک ایک پل قیامت سے کم نہ تھا۔۔ میں خاموش رہا، کچھ دیر بعد وہی آواز کانوں کو پھر سے سننی پڑ گئی جس نے کچھ ہی دیر پہلے میرے زخموں کو کُریدہ تھا "وزیراعظم کی میٹنگ ختم ہو گئی ہے وہ کچھی ہی دیر میں روانہ ہو جائیں گے، جنازے کی تیاری پکڑو" یعنی مرا میرا بھائی اورجنازے کے لیے انتظار وزیراعظم کا ہو رہا ہے؟ وہ بھی وہ وزیراعظم جنکی اس وقت کی ترجیح میٹنگ اٹینڈ کرنا تھی! اپنی کیفیت کو الفاظ کا لباس اوڑھنے کے لیے میرے پاس لغت کی کمی ہونے لگی تھی، بس میں خاموشی سے فرش پر بیٹھاتابوت دیکھتا رہا۔۔۔
خدا خدا کر کے وقت آیا، جنازہ پڑھا گیا، نہیں جانتا کہ میرے محترم ، عزت مآب، سلطانِ جاتی عمراں کب تشریف لائے اور کیسے نماز جنازہ ادا کیا کیونکہ پروٹوکول میں مجھے تو وہ کہیں دکھائی ہی نہیں دے رہے تھے۔ جی ہاں، وہی وزیراعظم جنکی وجہ سے میرے شہید بھائی کا جنازہ نہیں ادا ہو پا رہا تھا۔کیوں؟ کیونکہ وہ اس اہم میٹنگ کو اٹینڈ کر رہے تھے جس سے ہمارا کوئی لینا دینا ہی نہیں تھا۔ وہ رات بھر اپنے نرم بستر میں آرام فرماتے رہے تھے دوسری جانب ہزاروں کی نفری انکی حفاظت کے لیے جدید ہتھیاروں سے لیس ان کی آرام گاہ کی حفاظت فرما رہی تھی جبکہ پولیس ٹرئینگ سنٹر کوئٹہ کی اس بلڈنگ میں جہاں 700 نہتے جوان صرف ایک گارڈ کے اسرے موت کا انتظار کر رہے تھے۔ وزیراعظم صاحب نے صبح ہوتے ہی تسلی کے ساتھ تیار ہو کر اپنا ناشتہ کیا ہوگا اور شہداء کے لواحقین رات بھر جاگنے کے بعدبھوکے پیاسے ہسپتالوں میں اپنے پیاروں کی تلاش کر رہے تھے۔ وزیراعظم صاحب جب میٹنگ پر تھے لواحقین شہداء ان کی آمد کے انتظار میں بیٹھے اپنے پیاروں کے تابوت تک رہے تھے۔
وزیراعظم صاحب نے اپنی مصروفیات میں سے بہت مشکل سے میرے بھائی کے جنازے کے لیے وقت نکالا تھامگر وہ ہیں کہاں مجھے جنازے کے بعد بھی کہیں دکھائی نہ دئیے ہاں البتہ رش میں سے وردی پہنے ایک شخص ضرور آتا دکھائی دیا تھا۔ کسی نے کہا وزیراعظم جا چکے ہیں اور چیف آف آرمی سٹاف شہداء کے ورثا ء سے افسوس کرنے آرہے ہیں۔ میرے دل نے کہا کہ " کیا مطلب؟ وزیراعظم کو افسوس کرنا منع ہے؟یا وہ پھر سے اپنی کسی اہم مٹینگ کے لیے روانا ہوگئے ہیں؟ اسی دوران آرمی چیف ہم سب کے درمیان آکر کھڑے ہوگئے، میرے آس پاس کھڑے لوگ ان کے سینے میں سر چھپا چھپا کر رو رہے تھے، آوازیں آرہیں تھیں "میرا اکلوتا بیٹا تھا" ، سر ظالموں نے میرا بڑا بھائی شہید کردیا" میں خاموشی سے دیکھ رہا تھا، وہ آگے بڑھے اور مجھے بھی گلے سے لگایا، میں کچھ نہ کہہ پایا، بس بے اختیار پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔۔۔ اس بار ایک دکھ سے بھری مگر مضبوط آواز میرے کانوں تک پہنچی "میں بھی شہید کا بھائی ہوں، آپکی کیفیت اچھی طرح سمجھتا ہوں" میرا دکھ جیسے یک لخت ساکن ہوگیا، میں نے ان کا چہرہ دیکھااور اپنا دکھ انکی آنکھوں میں مجھے دکھائی دینے لگا، ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی شفیق بڑا بھائی ہے جس نے مردوں کی طرح حوصلہ دیا۔۔۔۔
ایک شخص کہہ رہا تھا کہ میں تربت سے ہوں اتنی دور شہید کاجست خاکی کیسے لے جاؤنگا؟ پیچھے کھڑے جنرل صاحب بولے C130 ہیلی کا بندوبست کیا جا ئے اور پهر اسے فوری طور پر یقینی بنایا گیا ، اسی کے ذریعےدور درازمقیم شہداء کے جست خاکی پہنچائے جائیں گے۔۔۔ لوگ شکرگزار نگاہوں سے انہیں دیکھ رہے تھے۔ میں سوچ رہا تھا کہ کل کی اندھیری رات میں بھی یہی وردی والے تھے جو مسیحا لگ رہے تھے اور اس وقت دن کی روشنی میں بھی وردی والا ہی مسیحا بنا ہوا ہے۔ ۔۔۔
No comments:
Post a Comment