SaadSalaar1@Gmail.com
وہ کیا نظریہ، کیا آئڈیالوجی ، کیا سوچ تھی جس نے برصغیر کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا۔ جس کی خاطر لاکھوں لوگ حجرتوں پر مجبور ہو گئے۔
قربانیاں دیں ، عصمتیں لٹائیں گئیں۔ کھیت کھلیان ، پکی فصلیں ، مویشی ، خوبصورت گھر ،حویلیاں یہ سب چھوڑ دینی پڑیں۔
یہ کیسا جنون تھا ؟ جو اپنی بچیوں کو اندھے کنووں میں چھلانگیں لگاتے دیکھ کر بھی کم نا ہوا ، بچوں کو نیزوں پہ پرویا جاتا رہا ، جوانوں کی جوانیاں خون بن کر بہتی رہیں ، عزیزوں کی لاشیں بچھتی رہیں مگر یہ جنون ختم نا ہوا۔
وہ کیا نظریہ، کیا آئڈیالوجی ، کیا سوچ تھی جس نے برصغیر کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا۔ جس کی خاطر لاکھوں لوگ حجرتوں پر مجبور ہو گئے۔
قربانیاں دیں ، عصمتیں لٹائیں گئیں۔ کھیت کھلیان ، پکی فصلیں ، مویشی ، خوبصورت گھر ،حویلیاں یہ سب چھوڑ دینی پڑیں۔
یہ کیسا جنون تھا ؟ جو اپنی بچیوں کو اندھے کنووں میں چھلانگیں لگاتے دیکھ کر بھی کم نا ہوا ، بچوں کو نیزوں پہ پرویا جاتا رہا ، جوانوں کی جوانیاں خون بن کر بہتی رہیں ، عزیزوں کی لاشیں بچھتی رہیں مگر یہ جنون ختم نا ہوا۔

کیا یہ سب کچھ ایک قطعہ زمین حاصل کرنے کی خاطر برداشت کیا گیا ؟
ہر گز نہیں۔۔۔ یہ سب اس نظریہ اس آئیڈیالوجی کی خاطر تھا ، جو دو قومی نظریہ کے نام پر مسلمانوں کے ذہنوں میں معرض وجود میں آیا۔
میں دنیا کے جغرافیے پر نظر دوڑاتا ہوں تو ایسی مثال مجھے کہیں نہیں ملتی۔ مانتا ہوں بہت سی قوموں نے بہت سی کاوشیں کیں جو تاریخ میں رقم ہوئیں۔ لیکن یہ سب کوششیں یا تو نسلی لحاظ سے کی گئیں یا جغرافیائی لحاظ سے یا پھر لسانی لحاظ سے۔
لیکن مزہب بالخصوص صرف اسلام کے نام پر مختلف زبانوں ، نسلوں اور علیحدہ علیحدہ طبقہ فکر کے حامل گروہوں کو ملا کر ایک قوم بنانے کی یہ کاوش اپنی مثال آپ تھی۔
سرسید احمد خان جیسے عظیم سکالر نے اس نظریہ کی ضرورت محسوس کی ، اقبال جیسے عظیم مفکر نے اس میں روح پھونکی ، اور پھر محمد علی جناح جیسی عہد ساز شخصیت نے اس نظریہ کو پروان چڑھا کر عروج پر پہنچا یا۔
یقینا یہ نظریہ اتنی کشش رکھتا تھا کہ اپنے زمانے کی عہد ساز شخصیتوں کی توجہ حاصل کرتا۔ اور اس نے یہ توجہ حاصل کی بھی۔
ہندی اردو تنازعے سے بیدار ہونے والی یہ سوچ کوئی نئی سو چ نہیں تھی۔ یہ وہی سوچ تھی جس نے قریش کے ایک ہی قبیلے ایک ہی خاندان کو صرف اسلام کی بنا پر تقسیم کر دیا ، اہل حق علیحدہ قوم ٹھھرے اور بت پرست علیحدہ۔
برصغیر میں بھی ایسا ہی ہوا ، اس سوچ کی بنیاد یہی تھی کہ مسلمان ہندووں سے علیحدہ قوم ہیں۔انکا مزہب ، رسم و رواج، رہن سہن کا طریقہ ہندووں سے بلکل علیحدہ ہے۔ یہ کبھی ایک ہو ہی نہیں سکتے۔ جس طرح محمد علی جناح کہتے تھے کہ جس گائے کو ہندو پوجتے ہیں اس کو مسلمان زبح کر کے کھاتے ہیں یہ دوقومیں کیسے اکٹھی رہ سکتی ہیں ؟
یہ فرق یہ تفریق محمد علی جناح کے ذہن کی پیداوار نہیں تھے بلکہ یہ دائمی تفریق ہے۔
آج بھی بھارت میں مسلمان کو ناپاک اور بھرشٹ سمجھا جاتا ہے ، ان سے نفرت اور کراہیت کا اظہار کیا جاتا ہے ، ہندو قوم کبھی انہیں تسلیم کر ہی نہیں سکتی ، دیکھ لیں بھارتی مسلمانوں کی حالت زار کیا ہے۔ مارشل اور جنگجو قوم ہونے کے باوجود بھارتی فوج میں مسلمانوں کی کیا نمائیندگی ہے ؟
تیس کروڑ آبادی ہونے کے باوجود ،، لوک اور راج سبھاوں میں کتنے نمائندے ہیں مسلمانوں کے ؟

مسلمانوں کی بیس فیصد آبادی کےلئے سرکاری نوکریوں میں کوٹہ کِتنا ہے ؟
بھارتی جیلوں میں مسلمان قیدیوں کا تناسب ہی سب سے زیادہ کیوں ہے ؟
گجرات ، حیدرآباد ، آسام میں مسلمانوں کے بے ہیمانہ قتل و عام اور معاشی استحصال کیوں ہورہا ہے۔
وہا ں کے مسلمان آج بھی خوف اور دہشت کے سائے تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں
یہ وہ حقائق ہیں جن کا ادراک برصغیر کے مسلم رہنماو ¿ں کو بہت پہلے ہی ہوچکا تھا۔ اور یہی حقائق دو قومی نظریہ کی بنیاد بنے، ان ہی حقیقتوں کو اقبال اور محمد علی جناح جیسے (سوکالڈ) سیکولر تو سمجھ گئے تھے ، مگر (سوکالڈ) علماءنا سمجھ سکے ، اور اس نظرئے کی مخالفت کرتے ہوے کانگریس میں شامل ہو گئے جس کی وجہ سے جونا گڑھ اور حیدر آباد جیسی ریاستیں ہاتھ سے نکل گئیں اور وہاں کے مسلمان آج تک سزا بھگت رہے ہیں۔
یہ نظریہ ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ رہے گا۔ رحمان کے بندوں اور شیطان کے چیلوں کے میں فرق ہمیشہ سے تھا ہمیشہ رہے گا۔ نا یہ نظریہ کوئی توڑ سکا نا توڑ سکے گا۔
قاسم و داہر کی لڑائی یہ تب تک جاری رہے گی جب تک کہ اس دنیا پر موجود آخری راجا داہر بھی جہنم رسید نا ہوجائے
No comments:
Post a Comment